مرے وہم و گماں سے بھی زیادہ ٹوٹ جاتا ہے
یہ دل اپنی حدوں میں رہ کے اتنا ٹوٹ جاتا ہے
میں روؤں تو در و دیوار مجھ پر ہنسنے لگتے ہیں
ہنسوں تو میرے اندر جانے کیا کیا ٹوٹ جاتا ہے
میں جس لمحے کی خواہش میں سفر کرتا ہوں صدیوں کا
کہیں پاؤں تلے آ کر وہ لمحہ ٹوٹ جاتا ہے
مرے خوابوں کی بستی سے جنازے اٹھتے جاتے ہیں
مری آنکھیں جسے چھو لیں وہ سپنا ٹوٹ جاتا ہے
نہ جانے کتنی مدت سے ہے دل میں یہ عمل جاری
ذرا سی ٹھیس لگتی ہے ذرا سا ٹوٹ جاتا ہے
دل ناداں ہماری تو نمو ہی نا مکمل تھی
تو حیرت کیا جو بنتے ہی ارادہ ٹوٹ جاتا ہے
مقدر میں مرے ساگرؔ شکست و ریخت اتنی ہے
میں جس کو اپنا کہہ دوں وہ ستارا ٹوٹ جاتا ہے

غزل
مرے وہم و گماں سے بھی زیادہ ٹوٹ جاتا ہے
سلیم ساگر