مرے قریب سے گزرے مجھے سدا بھی نہ دے
زباں کو لفظ نگاہوں کو حوصلہ بھی نہ دے
اب اس سے کیسے تعلق کی آرزو رکھیں
دعائے خیر تو کیا وہ کہ بد دعا بھی نہ دے
یہ چاندنی میں گلاسوں میں گھول دوں نہ کہیں
میں چاہتا ہوں وہ یادوں کا آسرا بھی نہ دے
ہمیں پہ سجتے ہیں یارو شراب بھی غم بھی
خدا کے واسطے اب کوئی مشورہ بھی نہ دے
مری نگاہ اسی رخ کی ہے اسیر تپشؔ
جو اپنے رخ سے کسی بات کا پتہ بھی نہ دے
غزل
مرے قریب سے گزرے مجھے سدا بھی نہ دے
مونی گوپال تپش