EN हिंदी
مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا | شیح شیری
mere naza ko mat us se kaho hua so hua

غزل

مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا

ولی عزلت

;

مرے نزع کو مت اس سے کہو ہوا سو ہوا
کہ دل دہندہ جیو یا مرو ہوا سو ہوا

جلا دیا جو پتنگ اب نہ رو ہوا سو ہوا
اے شمع صبح کو جو ہو سو ہو ہوا سو ہوا

دل اس کوں دے چکا دیوانگی نہ چھوڑوں گا
اے طفلو پتھروں سے مارو ہنسو ہوا سو ہوا

مجھے رلا کے خوں آنسو نہ پونچھ خوف یہ ہے
تو ہاتھ میرے لہو سے نہ دھو ہوا سو ہوا

بچھائیں پلکیں جو میں نے نہ آیا کہہ بھیجا
اب آگے راہ میں کانٹے نہ بو ہوا سو ہوا

کیا ہے قتل جو عزلتؔ کو اب نہ رو اے یار
کہ سر پہ حسن پرستوں کے جو ہوا سو ہوا