EN हिंदी
مرے نارسا تصور نے سراغ پا لیا ہے | شیح شیری
mere na-rasa tasawwur ne suragh pa liya hai

غزل

مرے نارسا تصور نے سراغ پا لیا ہے

اویس احمد دوراں

;

مرے نارسا تصور نے سراغ پا لیا ہے
میں پتا لگا چکا ہوں تو کہاں کہاں چھپا ہے

مجھے کون سربلندی کی طرف بلا رہا ہے
مرا نرگسی تخیل تو شکست کھا چکا ہے

تجھے قاتلوں کے نرغے سے چھڑائے گا نہ کوئی
یہ ہے مقتل اے مسافر تو کسے پکارتا ہے

سر شام جو غریبوں کے دیے بجھا رہی ہیں
انہیں سازشوں کا مرکز یہ تری محل سرا ہے

کوئی موسمی پرندوں سے کہے ادھر نہ آئیں
ابھی میرے گلستاں کی بڑی مضمحل فضا ہے

سن اے میری پیاری دنیا مری بے قرار دنیا
ترا درد مند شاعر ترے گیت گا رہا ہے

وہ بہ زعم خود گلستاں کا ہے سربراہ دوراںؔ
جو وہ چاہے سو کرے گا اسے کون روکتا ہے