مرے مدعائے الفت کا پیام بن کے آئی
تری زلف کی سیاہی مری شام بن کے آئی
ہوئی کاشف حقیقت یہ ضمیر مے کدہ کی
مری بے خودی جو درد تہ جام بن کے آئی
تری اک ادا تھی یہ بھی گل و خار کو جگانے
جو نسیم صبح گاہی کا خرام بن کے آئی
یہ صبا کی بے رخی تھی سوئے آشیاں جو گزری
نہ سلام لے کے آئی نہ پیام بن کے آئی
مرے غم کدے میں پھوٹی جو شعاع داغ دل سے
وہی اک چراغ طاق سر شام بن کے آئی
سر طور جس کی جویا تھی نگاہ چشم موسیٰ
وہی اک جھلک فروغ لب بام بن کے آئی
رخ و زلف کی تمنا مرے دل کو مژدہ بادا
مری صبح بن کے آئی مری شام بن کے آئی
ہے بہت محال اس کا جو غبارؔ ما بدل ہو
مری تیرگئ قسمت مری شام بن کے آئی

غزل
مرے مدعائے الفت کا پیام بن کے آئی
غبار بھٹی