EN हिंदी
مرے لیے تو یہ سانحہ بھی نیا نہیں تھا | شیح شیری
mere liye to ye saneha bhi naya nahin tha

غزل

مرے لیے تو یہ سانحہ بھی نیا نہیں تھا

پیر اکرم

;

مرے لیے تو یہ سانحہ بھی نیا نہیں تھا
مسافت جاں کا ہم سفر بھی مرا نہیں تھا

لبوں پہ پہنچے تو نیم جاں تھے حروف سارے
سماعتوں کا کوئی دریچہ کھلا نہیں تھا

نہ مل سکی اس کو روشنی کی کوئی بشارت
کہ تیرگی کا عذاب اس نے سہا نہیں تھا

نگاہ گلشن میں جو کھٹکتا تھا خار بن کے
گلے لگا کر اسے جو دیکھا برا نہیں تھا

وہ صاحب اختیار و مسند وہ میرا منصف
وہ حاکم مطلق العنان تھا خدا نہیں تھا

حریم جاں میں مہک رہا ہے وہ حرف خوشبو
کہ جو ابھی شاخسار لب پر کھلا نہیں تھا