مرے لیے مری پرواز کے لیے کم ہے
ہزار جست تگ و تاز کے لیے کم ہے
یہ دو جہان بھی میرے لیے نہیں کافی
یہ انتہا مرے آغاز کے لیے کم ہے
یہ میرے قتل پہ آمادہ کون دکھتا ہے
کہ ناروا بھی در انداز کے لیے کم ہے
کوئی صدا ہے کہ پی ہے کسی پپیہے کی
گمان یہ کسی آواز کے لیے کم ہے
روانہ کی تو گئی ہے پہ کیا کیا جائے
کہ یہ کمک مرے دم ساز کے لیے کم ہے
مجھے غزل کے نئے خال و خد بنانے ہیں
مرا ہنر مرے اعجاز کے لیے کم ہے
علاج چارہ گراں عام کیجئے مہدیؔ
تمام عمر بھی اس کاز کے لئے کم ہے
غزل
مرے لیے مری پرواز کے لیے کم ہے
شوکت مہدی