مرے لبوں پہ اسی آدمی کی پیاس نہ ہو
جو چاہتا ہے مرے سامنے گلاس نہ ہو
یہ تشنگی تو ملی ہے ہمیں وراثت میں
ہمارے واسطے دریا کوئی اداس نہ ہو
تمام دن کے دکھوں کا حساب کرنا ہے
میں چاہتا ہوں کوئی میرے آس پاس نہ ہو
مجھے بھی دکھ ہے خطا ہو گیا نشانہ ترا
کمان کھینچ میں حاضر ہوں تو اداس نہ ہو
غزل ہی رہ گئی طاہر فرازؔ اپنے لیے
جہاں میں کوئی ایسا بھی بے اساس نہ ہو
غزل
مرے لبوں پہ اسی آدمی کی پیاس نہ ہو
طاہر فراز