EN हिंदी
مرے لبوں پہ اسی آدمی کی پیاس نہ ہو | شیح شیری
mere labon pe usi aadmi ki pyas na ho

غزل

مرے لبوں پہ اسی آدمی کی پیاس نہ ہو

طاہر فراز

;

مرے لبوں پہ اسی آدمی کی پیاس نہ ہو
جو چاہتا ہے مرے سامنے گلاس نہ ہو

یہ تشنگی تو ملی ہے ہمیں وراثت میں
ہمارے واسطے دریا کوئی اداس نہ ہو

تمام دن کے دکھوں کا حساب کرنا ہے
میں چاہتا ہوں کوئی میرے آس پاس نہ ہو

مجھے بھی دکھ ہے خطا ہو گیا نشانہ ترا
کمان کھینچ میں حاضر ہوں تو اداس نہ ہو

غزل ہی رہ گئی طاہر فرازؔ اپنے لیے
جہاں میں کوئی ایسا بھی بے اساس نہ ہو