EN हिंदी
مرے کچھ بھی کہے کو کاٹتا ہے | شیح شیری
mere kuchh bhi kahe ko kaTta hai

غزل

مرے کچھ بھی کہے کو کاٹتا ہے

بکل دیو

;

مرے کچھ بھی کہے کو کاٹتا ہے
وہ اپنے دائرے کو کاٹتا ہے

میں اس بازار کے قابل نہیں ہوں
یہاں کھوٹا کھرے کو کاٹتا ہے

اداس آنکھیں پہنتی ہیں ہنسی کو
پھر آنسو قہقہے کو کاٹتا ہے

نہ مجھ کو ہیں قبول اپنی خطائیں
نہ وہ اپنے لکھے کو کاٹتا ہے

توجہ چاہتا ہے غم پرانا
سو رہ رہ کر نئے کو کاٹتا ہے

وہی آنسو وہی ماضی کے قصے
جسے دیکھو کٹے کو کاٹتا ہے