مرے کمرے میں جو بکھری ہوئی ہے
یہ ویرانی کسی کی دی ہوئی ہے
مجھے کل خواب میں صحرا دکھا تھا
بدن سے خاک سی لپٹی ہوئی ہے
یقیناً ہے اسی کے تن کی خوشبو
مری غزلوں میں جو مہکی ہوئی ہے
ادب والے ادب سے کھیلتے ہیں
زبان میرؔ بھی کڑوی ہوئی ہے
وہ سچائی جسے تم ڈھونڈھتے ہو
صلیب و دار پر لٹکی ہوئی ہے
کسے کہتے ہیں غربت جانتا ہوں
مرے دالان میں کھیلی ہوئی ہے
شرافت اب حیا ایمانداری
کہاں ڈھونڈھوں کہاں رکھی ہوئی ہے
تو جس کی یاد میں ڈوبا ہے عادلؔ
وہ کس کی سوچ میں کھوئی ہوئی ہے
غزل
مرے کمرے میں جو بکھری ہوئی ہے
کامران عادل