مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی
چمن گرفت خزاں میں ہوگا بہار اجڑی ہوئی ملے گی
جواں ہے ہمت ہے عزم محکم نظر اٹھائیں تو اہل دانش
الم کے تاریک افق پہ روشن شعاع امید بھی ملے گی
تصور اس ماہرو کا ہوگا کبھی تو دل میں ضیا بدامن
کبھی تو ظلمت کدے میں ہم کو کھلی ہوئی چاندنی ملے گی
مرا پتہ پوچھ کر نہ توڑو سکوت میرا جمود میرا
بلند محلوں میں رہنے والو کہاں مری جھونپڑی ملے گی
یہ کور چشمی کا ہے تماشا کہ ظلمتوں کی تہیں جمی ہیں
نظر سے پردہ ہٹا کے دیکھیں یہاں وہاں روشنی ملے گی
روایتی پیکر غزل میں بھرا ہے رنگ جدید میں نے
ضیاؔ مرے شعر میں مہیا کوئی نئی بات ہی ملے گی
غزل
مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی
ضیا فتح آبادی