مرے ہم رقص سائے کو بالآخر یونہی ڈھلنا تھا
کوئی موسم نہیں رکتا سو موسم کو بدلنا تھا
تقاضا مصلحت کا تھا ہوا سے دوستی کر لیں
چراغوں کو اجالے تک یونہی ہر طور جلنا تھا
اسے تو یہ اجازت تھی وہ جب چاہے پلٹ جائے
سفر میرا تو باقی تھا مجھے تو یونہی چلنا تھا
تلاطم میں بہا کر جو مری ہستی کو لے جاتی
اسی موج تمنا سے مجھے پہلے سنبھلنا تھا
ہمیں بھی سبز رنگت کا وہ پیراہن عطا ہوتا
ہماری آستینوں میں اگر سانپوں کو پلنا تھا
ہمیشہ اپنے کاسے میں دعاؤں کی طلب رکھی
دعاؤں کے وسیلے سے برا ہر وقت ٹلنا تھا
بتایا تھا کہ یہ جوہر بہت نایاب ہے جاناں
اسے کھو کر تمہیں یونہی فقط ہاتھوں کو ملنا تھا
شب غم کی طوالت سے نہ گھبرانا فرحؔ آخر
یہ سورج ڈھل بھی جائے تو اسے پھر سے نکلنا تھا

غزل
مرے ہم رقص سائے کو بالآخر یونہی ڈھلنا تھا
فرح اقبال