مرے حال سے نہیں بے خبر مرا کوزہ گر
کہ ہے شاہ رگ سے قریب تر مرا کوزہ گر
کبھی بخش دے مرے خد و خال کو تازگی
کبھی نوچ لے مرے بال و پر مرا کوزہ گر
کہیں جان جاں کہیں مہرباں کہیں راز داں
کہیں نکتہ بیں، کہیں نکتہ ور مرا کوزہ گر
مری خوبیوں مری خامیوں سے ہے بے خبر
نہیں بے بصر نہیں کم نظر مرا کوزہ گر
مرا آئنہ کبھی سنگ و خشت میں ڈھال دے
کبھی توڑ دے مجھے جوڑ کر مرا کوزہ گر
مجھے ایسے لگتا ہے میرے جسم کی خاک کو
ابھی اور رکھے گا چاک پر مرا کوزہ گر
مجھے راستوں کی صعوبتوں سے نہیں خطر
مرے ساتھ ہے مرا ہم سفر مرا کوزہ گر
وہی زخم دے وہی زخم دل کی دوا کرے
مرا مہرباں مرا چارہ گر مرا کوزہ گر
غزل
مرے حال سے نہیں بے خبر مرا کوزہ گر
خورشید بیگ ملیسوی