مرے غبار سفر کا مآل روشن ہے
شفق شفق ابھی نقش زوال روشن ہے
صدائے گنبد تعبیر سن رہا ہوں میں
فضائے خواب میں کرنوں کا جال روشن ہے
وہ ایک فکریہ لمحہ اسی طرح ہے ابھی
ترے جواب سے میرا سوال روشن ہے
پرند کیوں نہ اڑائیں ہنسی اندھیروں کی
مرے شجر کی ابھی ڈال ڈال روشن ہے
سرور تیری رفاقت کا کم نہیں ہوتا
تصورات میں رنگ وصال روشن ہے
نہ کوئی بات ہے کہنے کی اور نہ سننے کی
تمہارا مجھ پہ مرا تم پہ حال روشن ہے
سوال راہ بدلنے کا ہے تو تم بدلو
مری دلیل ہے واضح مثال روشن ہے
جسے میں وقت کے صحرا میں پھینک آیا ہوں
اسی چٹان پہ صدیوں کا حال روشن ہے
دیے جلاتا ہوا بڑھ رہا ہے دست ہوا
فضا مہیب ہے لیکن خیال روشن ہے
شکاری اپنی جگہ مطمئن ہیں چپ سادھے
پرندے دیکھ رہے ہیں کہ جال روشن ہے
کسی اندھیرے کو خاطر میں تم نہیں لانا
مرا چراغ بہ حد کمال روشن ہے
یہ احتیاط سفر کا مقام ہے نصرتؔ
یہاں سے وحشت پائے غزال روشن ہے
غزل
مرے غبار سفر کا مآل روشن ہے
نصرت گوالیاری