مرے گھر کی اینٹیں چرا لے گیا وہ
نہیں جانتا ہے کہ کیا لے گیا وہ
اسے کیا ضرورت تھی وہ جانتا ہے
جو گھر میں پرایا خدا لے گیا وہ
سر راہ جس نے کیا قتل میرا
ستم ہے مرا خوں بہا لے گیا وہ
مرا روتا بچہ بہلتا تھا جس سے
وہ لکڑی کا ہاتھی اٹھا لے گیا وہ
سخاوت نے اس کو دھنی کر دیا ہے
فقیروں کی سچی دعا لے گیا وہ
اسے تو ضرورت تھی چنگاریوں کی
ہواؤں میں شعلے دبا لے گیا وہ
وہ کل آئے گا آگ اس میں لگانے
مری جھونپڑی کا پتہ لے گیا وہ
لبھانے کی اس میں ادا کب تھی پہلے
مری شاعری کی ادا لے گیا وہ
وہ بت ہم سے مل کر بنا سومناتی
کہ سونے کا پانی چڑھا لے گیا وہ
غزل
مرے گھر کی اینٹیں چرا لے گیا وہ
ف س اعجاز