EN हिंदी
مرے اعتماد کو غم ملا مری جب کسی پہ نظر گئی | شیح شیری
mere etimad ko gham mila meri jab kisi pe nazar gai

غزل

مرے اعتماد کو غم ملا مری جب کسی پہ نظر گئی

شمس فرخ آبادی

;

مرے اعتماد کو غم ملا مری جب کسی پہ نظر گئی
اسی جستجو اسی کرب میں مری ساری عمر گزر گئی

کبھی بن کے عشق کی رازداں کبھی ہو کے آہ کی داستاں
کئی طرح تیرے حضور تک مرے حال دل کی خبر گئی

مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو مرے دوستو یہ کرم کرو
مری عمر رفتہ کو دو صدا مجھے درد دے کے کدھر گئی

کبھی میکشوں سے خلوص تھا تری چشم شیشہ نواز کو
مگر اب یہ دور ہے ساقیا کہ نظر سے قدر بشر گئی

مجھے ضبط غم کا نہ دے سبق ذرا اپنے حال پہ کر نظر
مری الجھنوں کے خیال سے تری زلف بھی تو بکھر گئی

یہ تو وقت وقت کی بات ہے کوئی رو دیا کوئی ہنس دیا
مری واردات دل و نظر مری زندگی پہ گزر گئی

کسے ڈھونڈتے ہو نگر نگر کسے شہر شہر ہو پوچھتے
تمہیں شمسؔ جس کی تلاش ہے وہ نگاہ آئنہ گر گئی