مرے دل میں اس نے ایسے تیرا خیال ڈالا
کورے لباس پر ہو جیسے گلال ڈالا
کسی سمت بھی تو رہتا ہرگز مرا نہ ہوتا
ترا نام لکھ کے سکہ پھر بھی اچھال ڈالا
میں زمیں سے آسماں کی ہر حد کے پار پہنچی
تہ تک تھا تیری جانا سب کچھ کھنگال ڈالا
اک پل میں دیکھ تیری تصویر بن گئی جب
کسی آرزو میں لا کر تھوڑا ملال ڈالا
اس نے جواب میں کچھ تارے گرا دئے تھے
میں نے آسماں کو جب جب کوئی سوال ڈالا

غزل
مرے دل میں اس نے ایسے تیرا خیال ڈالا
رینو نیر