مرے دل کی دھڑک اس کے تبسم پر گراں کیوں ہو
میں افسانہ ہوں اس کا وہ مرا افسانہ خواں کیوں ہو
مرے کام آ گئی آخر مری کاشانہ بر دوشی
لپکتی بجلیوں کی زد پہ میرا آشیاں کیوں ہو
کناروں سے گزر جانا ہی طوفانوں کی فطرت ہے
جہاں دنیا ٹھہر جائے قدم میرا وہاں کیوں ہو
ترا جلوہ بھی جب تیرا ہی پردہ ہوتا جاتا ہے
تو پھر میری نگاہوں پر نگاہوں کا گماں کیوں ہو
نہ میں وارفتۂ مطرب نہ میں جاندادۂ ساقی
اگر محفل سے اٹھ جاؤں تو محفل بد گماں کیوں ہو
میں جس عالم میں ہوں اپنی جگہ اے شورؔ تنہا ہوں
جدا ہو جس کی منزل وہ رہین کارواں کیوں ہو
غزل
مرے دل کی دھڑک اس کے تبسم پر گراں کیوں ہو
منظور حسین شور