مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے
یہ دریدہ تن یہ دریدہ من تری چاہتوں کا کمال ہے
مجھے سانس سانس گراں لگے، یہ وجود وہم و گماں لگے
میں تلاش خود کو کروں کہاں مری ذات خواب و خیال ہے
وہ جو چشم تر میں ٹھہر گیا وہ ستارہ جانے کدھر گیا
نہ نشاط غم کا ہجوم اب نہ ہی سبز یاد کی ڈال ہے
اسے فصل فصل بھی سینچ کر ملا سایہ اور نہ ملا ثمر
یہ عجیب عشق کا پیڑ ہے یہ عجیب شاخ نہال ہے
مرا حرف حرف اسی کا ہے مرے خواب خواب میں وہ بسا
جو قریب رہ کے بھی دور ہے اسے پانا کتنا محال ہے
غزل
مرے چارہ گر تجھے کیا خبر، جو عذاب ہجر و وصال ہے
تسنیم عابدی