مرے بھی سرخ رو ہونے کا اک موقع نکل آتا
غم جاناں کے ملبے سے غم دنیا نکل آتا
یہ مانا میں تھکا ہارا مسافر ہوں مگر پھر بھی
تمہارے ساتھ چلنے کا کوئی رستہ نکل آتا
تری یادوں کی پتھریلی زمیں شاداب ہو جاتی
اگر آنکھوں کے صحرا سے کوئی دریا نکل آتا
چلو اچھا ہوا ٹھہرا نہ وہ بھی آخر شب تک
کہ اس کے بعد تو پھر صبح کا تارا نکل آتا
کہاں بے تاب رکھ سکتا تھا پھر احساس محرومی
دیار غیر میں تم سا کوئی اپنا نکل آتا
ردائے آگہی کے بوجھ نے خم کر دیا ورنہ
ہمارا قد بھی پھر تم سے بہت اونچا نکل آتا
غزل
مرے بھی سرخ رو ہونے کا اک موقع نکل آتا
یوسف تقی