مرے بدن میں چھپی آگ کو ہوا دے گا
وہ جسم پھول ہے لیکن مجھے جلا دے گا
تمہارے مہرباں ہاتھوں کو میرے شانے سے
مجھے گماں بھی نہ تھا وقت یوں ہٹا دے گا
ہے اور کون مرے گھر میں یہ سوال نہ کر
مرا جواب ترا رنگ رخ اڑا دے گا
چلے بھی آؤ کہ یہ ڈوبتا ہوا سورج
چراغ جلنے سے پہلے مجھے بجھا دے گا
کھڑے ہوئے ہیں یہاں تو بلند ہمت لوگ
تھکے ہوؤں کو بھلا کون راستہ دے گا
دروں کو بند کرو ورنہ آندھیوں کا یہ زور
تمہارے کچے گھروں کی چھتیں اڑا دے گا
جہاں سب اپنے ہی دامن کو دیکھتے ہوں بشیرؔ
اس انجمن میں بھلا کون کس کو کیا دے گا
غزل
مرے بدن میں چھپی آگ کو ہوا دے گا
بشیر فاروقی