مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
تمہاری چاہ میں جینے کے لالے پڑتے جاتے ہیں
ادھر اس کی شرارت جس نے غم کی آگ سلگا دی
ادھر میرا کلیجہ جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں
مرے ان کے تعلق پر کوئی اب کچھ نہیں کہتا
خدا کا شکر سب کے منہ میں تالے پڑتے جاتے ہیں
غم ناکامیٔ کوشش سے حالت بگڑی جاتی ہے
کلیجے میں یہاں بے آگ چھالے پڑتے جاتے ہیں
ہمارا درد آہ دل مزا دیتا ہے اڑ اڑ کر
تمہارے چاند سے چہرے پہ ہالے پڑتے جاتے ہیں
مسیحا جا رہا ہے دوڑ کر آواز دو مضطرؔ
کہ دل کو دیکھتا جا جس میں چھالے پڑتے جاتے ہیں
غزل
مرے ارمان مایوسی کے پالے پڑتے جاتے ہیں
مضطر خیرآبادی