EN हिंदी
مرے اندر کہیں پر کھو گئی ہے | شیح شیری
mere andar kahin par kho gai hai

غزل

مرے اندر کہیں پر کھو گئی ہے

وجیہ ثانی

;

مرے اندر کہیں پر کھو گئی ہے
محبت خاک میں لتھڑی ہوئی ہے

میں زخمی دل لیے کب تک پھروں گا
تری خواہش تو کب کی مر چکی ہے

مری آنکھوں میں ہیں آنسو ابھی تک
کلی اک میز پر اب تک دھری ہے

ترے غم کو سمیٹا جب تو دیکھا
اداسی صحن میں بکھری پڑی ہے

ترا سایہ مجھے لپٹا ہوا ہے
تو پھر تو فاصلے پر کیوں کھڑی ہے

لکیریں ہجر کا دکھ رو پڑیں یا
تمہارے ہاتھ میں مہندی رچی ہے