مرے آنسوؤں پہ نظر نہ کر مرا شکوہ سن کے خفا نہ ہو
اسے زندگی کا بھی حق نہیں جسے درد عشق ملا نہ ہو
یہ عنایتیں یہ نوازشیں مرے درد دل کی دوا نہیں
مجھے اس نظر کی تلاش ہے جو ادا شناس وفا نہ ہو
تجھے کیا بتاؤں میں بے خبر کہ ہے درد عشق میں کیا اثر
یہ ہے وہ لطیف سی کیفیت جو زباں تک آئے ادا نہ ہو
یہ شراب زیر حسیں گھٹا جو ہے کیفؔ نازش میکدہ
کسی تشنہ کام کی آرزو کسی تشنہ لب کی دعا نہ ہو

غزل
مرے آنسوؤں پہ نظر نہ کر مرا شکوہ سن کے خفا نہ ہو
کیف اکرامی