مرا یہ ملبہ مرا خرابہ تمہاری یادوں سے لڑ رہا ہے
اسی کی تعمیر ہو رہی ہے وو ایک گھر جو نہیں بچا ہے
پڑے ہوئے ہیں جلی بجھی سگرٹوں کے ٹکڑے ہر اک جگہ پر
اور ایک چہرہ شگفتہ چہرہ تمام گھر میں بسا ہوا ہے
لگا رہی ہے مجھے صدائے ہوا دریچے سے لڑتے لڑتے
مرا یہ کمرہ خموش کمرہ کسی کی آہٹ سے بھر گیا ہے
کہیں سے سایہ بھی آ گئے ہیں مجھے سنانے کہانی اپنی
کوئی فسانہ بھی دھیرے دھیرے بلند منظر سے ہو رہا ہے
بلا رہیں ہیں مجھے دوبارہ اداسیوں کی حسین وادی
کسی کی یادوں کا سبز موسم ابھی بھی تازہ بنا ہوا ہے
جو رنگ روغن بکھر رہے ہیں تمام گھر میں عطا ہے اس کی
بس ایک آمد سے اس کی ویراں کھنڈر سا یہ گھر بھی جی اٹھا ہے

غزل
مرا یہ ملبہ مرا خرابہ تمہاری یادوں سے لڑ رہا ہے
دنیش نائیڈو