مرا وجود شمار نفس میں آیا نہیں
تمام عمر میں سانسوں کے بس میں آیا نہیں
نقوش لمس حقیقت مٹانے والا تھا
مگر وہ خواب مری دسترس میں آیا نہیں
سوال یہ ہے کہ دشت بدن کا کیا ہوگا
اگر جنوں کا پرندہ قفس میں آیا نہیں
عجب نہیں کہ یہ باہیں کچل کے رکھ دیتیں
بھلا ہوا وہ حصار ہوس میں آیہ نہیں
یہ کون ہے جو ہمیں طول دیتا رہتا ہے
یہ کون ہے جو زد پیش وپس میں آیا نہیں
غزل
مرا وجود شمار نفس میں آیا نہیں
عاقب صابر