مرا رفیق پس جسم و جان زندہ رہا
یقین مردہ ہوا پر گمان زندہ رہا
جہاں وہ رہتا تھا اب اس کی یاد رہتی ہے
مکیں بغیر بھی گویا مکان زندہ رہا
بس اس کے ہونے کا احساس ہے غرض کہ خدا
وجود واہمے کے درمیان زندہ رہا
سخن سے فائدہ کچھ ہو تو کوئی بولے بھی
میں جس جگہ بھی رہا بے زبان زندہ رہا
تمام عمر کٹی بے بسی کے عالم میں
یوں کہنے کے لئے بوڑھا جوان زندہ رہا
وہ جب تلک رہا ماحول خوش گوار رہا
وہ بزم میں صفت زعفران زندہ رہا

غزل
مرا رفیق پس جسم و جان زندہ رہا
محمد عابد علی عابد