مرا ماضی مری نفی ہی تو ہے
ہر قدم پر کوئی کمی ہی تو ہے
علم کو روشنی سے کیا مطلب
یہ اندھیروں سے دل لگی ہی تو ہے
ماسوا تھا نہ ماورا کوئی
کوئی طاقت کہیں چھپی ہی تو ہے
دل نشیں بات اس کی لو سی تھی
شمع امشب وہی جلی ہی تو ہے
بات کہنے میں کچھ نہیں کوثرؔ
خشک نظروں میں کچھ نمی ہی تو ہے

غزل
مرا ماضی مری نفی ہی تو ہے
سیدہ کوثر منور شرقپوری