مرا خلوص محبت بھی کامراں نہ ہوا
وہ ظلم ڈھاتا رہا مجھ پہ مہرباں نہ ہوا
جبین عشق جھکی ہے نہ جھک سکے گی کبھی
برائے سجدہ اگر تیرا آستاں نہ ہوا
ہے بات کیا جو ابھی تک کھلے نہ لالہ و گل
خزاں کے بعد بھی شاداب گلستاں نہ ہوا
تری ہنسی پہ لٹا دیتے چاند تاروں کو
ہمارے زیر اثر آج آسماں نہ ہوا
وہ آئے میرے تصور میں شکریہ ان کا
زہے نصیب مرا جذب رائیگاں نہ ہوا
کسی کے عشق نے وہ حوصلہ دیا مجھ کو
کوئی بھی غم مرے دل پر کبھی گراں نہ ہوا
وہ آشیانہ ہو گلشن ہو یا قفس کشفیؔ
ستم زمانے میں ہم پر کہاں کہاں نہ ہوا

غزل
مرا خلوص محبت بھی کامراں نہ ہوا
کشفی لکھنؤی