EN हिंदी
مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے | شیح شیری
mera ji hai jab tak teri justuju hai

غزل

مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے

خواجہ میر دردؔ

;

مرا جی ہے جب تک تری جستجو ہے
زباں جب تلک ہے یہی گفتگو ہے

خدا جانے کیا ہوگا انجام اس کا
میں بے صبر اتنا ہوں وہ تند خو ہے

تمنا تری ہے اگر ہے تمنا
تری آرزو ہے اگر آرزو ہے

کیا سیر سب ہم نے گلزار دنیا
گل دوستی میں عجب رنگ و بو ہے

غنیمت ہے یہ دید و دید یاراں
جہاں آنکھ مند گئی نہ میں ہوں نہ تو ہے

نظر میرے دل کی پڑی دردؔ کس پر
جدھر دیکھتا ہوں وہی رو بہ رو ہے