مرا دل سنگ دل نے دل کا ارماں بن کے لوٹا ہے
غضب ہے خانۂ الفت کو مہماں بن کے لوٹا ہے
کیا اندھیر ظالم نے بجھا کر شمع الفت کو
امیدوں کی سحر کو شام ہجراں بن کے لوٹا ہے
جھلک دکھلا کے جس نے نیند آنکھوں کی اڑائی تھی
اسی نے نقد دل خواب پریشاں بن کے لوٹا ہے
زبان عشق میں جس کو کہیں گے دشمن ایماں
اسی پیماں شکن نے روح ایماں بن کے لوٹا ہے
زبان شوق پر رکھ رکھ کے الزام سخن سازی
بت خاموش نے مجھ کو زبان داں بن کے لوٹا ہے
میں جس کو منزل مقصود کا رہبر سمجھتا تھا
اسی بے درد نے مجھ کو نگہباں بن کے لوٹا ہے
کیا مجھ کو شکار کفر لے کر آڑ ایماں کی
کسی کافر نے اے نازشؔ مسلماں بن کے لوٹا ہے
غزل
مرا دل سنگ دل نے دل کا ارماں بن کے لوٹا ہے
نازش سکندرپوری