مرا دیوانگی پر اس قدر مغرور ہو جانا
کہ رفتہ رفتہ حد آگہی سے دور ہو جانا
پتہ دیتا ہے گمراہیٔ رہ گیر محبت کا
بچھڑنا اور بچھڑ کر قافلے سے دور ہو جانا
کہیں دنیائے الفت کو تہہ و بالا نہ کر ڈالے
غرور حسن کے آئین کا دستور ہو جانا
ازل سے تیرہ بخت عشق کے حصے میں آیا ہے
شب غم دل کا جل جل کر چراغ طور ہو جانا
مری دانست ناقص میں کمال خود نمائی ہے
زمیں سے آسماں تک آپ کا مشہور ہو جانا
کسی کا جشن آزادی منانا ہے بہت آساں
مگر دشوار ہے غارت گر جمہور ہو جانا
رگوں کا خون رفتہ رفتہ ٹھنڈا ہو چلا میکشؔ
مرے درد جگر کو آ گیا کافور ہو جانا
غزل
مرا دیوانگی پر اس قدر مغرور ہو جانا
میکش ناگپوری