مرا بدن ہے مگر مجھ سے اجنبی ہے ابھی
مرے خیال سے مجھ میں کوئی کمی ہے ابھی
سحر سحر نہ پکارو دبک کے سو جاؤ
تمہارے حصے کی شب تو بہت پڑی ہے ابھی
نہ پوچھو کیسے ہوئیں ڈھیر گھر کی دیواریں
وہ اک صدا اسی ملبے میں گھومتی ہے ابھی
وہ جس کی لہروں نے صدیوں کا فرق ڈال دیا
ہمارے بیچ میں حائل وہی ندی ہے ابھی
میں تھک گیا ہوں مجھے ایک لمحہ سونے دو
میں جانتا ہوں کہ منزل بہت پڑی ہے ابھی
میں اس کے واسطے سورج کہاں سے آخر لاؤں
نہ جانے رات مجھے کیا سمجھ رہی ہے ابھی
نہ جانے کب سے سفر میں تھی اس کو مت چھیڑو
یہ گرد میرے بدن پر ذرا جمی ہے ابھی
وہ میں نہیں تھا وہ میری صدا تھی گلیوں میں
کہ میرے پاؤں میں زنجیر تو پڑی ہے ابھی
نہ جانے وقت کب البم سمیٹ لے اپنا
یہ تیز تیز ہوا یوں تو چل رہی ہے ابھی
غزل
مرا بدن ہے مگر مجھ سے اجنبی ہے ابھی
عابد عالمی