کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال
پرواز خواب ہو گئی ہے بال و پر خیال
مشکل ہے مٹ گئے ہوئے نقشوں کی پھر نمود
جو صورتیں بگڑ گئیں ان کا نہ کر خیال
مو کو عبث ہے تاب کلی یوں ہی تنگ ہے
اس کا دہن ہے وہم و گمان و کمر خیال
رخسار پر ہمارے ڈھلکنے کو اشک کے
دیکھے ہے جو کوئی سو کرے ہے گہر خیال
کس کو دماغ شعر و سخن ضعف میں کہ میرؔ
اپنا رہے ہے اب تو ہمیں بیشتر خیال
غزل
کیسا چمن اسیری میں کس کو ادھر خیال
میر تقی میر