EN हिंदी
کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک | شیح شیری
kahin pahuncho bhi mujh be-pa-o-sar tak

غزل

کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک

میر تقی میر

;

کہیں پہنچو بھی مجھ بے پا و سر تک
کہ پہنچا شمع ساں داغ اب جگر تک

کچھ اپنی آنکھ میں یاں کا نہ آیا
خذف سے لے کے دیکھا در تر تک

جسے شب آگ سا دیکھا سلگتے
اسے پھر خاک ہی پایا سحر تک

ترا منہ چاند سا دیکھا ہے شاید
کہ انجم رہتے ہیں ہر شب ادھر تک

جب آیا آہ تب اپنے ہی سر پر
گیا یہ ہاتھ کب اس کی کمر تک

ہم آوازوں کو سیر اب کی مبارک
پر و بال اپنے بھی ایسے تھے پر تک

کھنچی کیا کیا خرابی زیر دیوار
ولے آیا نہ وہ ٹک گھر سے در تک

گلی تک تیری لایا تھا ہمیں شوق
کہاں طاقت کہ اب پھر جائیں گھر تک

یہی درد جدائی ہے جو اس شب
تو آتا ہے جگر مژگان تر تک

دکھائی دیں گے ہم میت کے رنگوں
اگر رہ جائیں گے جیتے سحر تک

کہاں پھر شور شیون جب گیا میرؔ
یہ ہنگامہ ہے اس ہی نوحہ گر تک