کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا
سو ہو چلا ہوں پیشتر از صبح سرد سا
بیٹھا ہوں جوں غبار ضعیف اب وگرنہ میں
پھرتا رہا ہوں گلیوں میں آوارہ گرد سا
قصد طریق عشق کیا سب نے بعد قیس
لیکن ہوا نہ ایک بھی اس رہ نورد سا
حاضر یراق بے مزگی کس گھڑی نہیں
معشوق کچھ ہمارا ہے عاشق نبرد سا
کیا میرؔ ہے یہی جو ترے در پہ تھا کھڑا
نمناک چشم و خشک لب و رنگ زرد سا
غزل
کس شام سے اٹھا تھا مرے دل میں درد سا
میر تقی میر