EN हिंदी
کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا | شیح شیری
kya din the we ki yan bhi dil aarmida tha

غزل

کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا

میر تقی میر

;

کیا دن تھے وے کہ یاں بھی دل آرمیدہ تھا
رو آشیاں طائر رنگ پریدہ تھا

قاصد جو واں سے آیا تو شرمندہ میں ہوا
بیچارہ گریہ ناک گریباں دریدہ تھا

اک وقت ہم کو تھا سر گریہ کہ دشت میں
جو خار خشک تھا سو وہ طوفاں رسیدہ تھا

جس صید گاہ عشق میں یاروں کا جی گیا
مرگ اس شکار گہ کا شکار رمیدہ تھا

کوری چشم کیوں نہ زیارت کو اس کی آئے
یوسف سا جس کو مد نظر نوردیدہ تھا

افسوس مرگ صبر ہے اس واسطے کہ وہ
گل ہائے باغ عشرت دنیا نچیدہ تھا

مت پوچھ کس طرح سے کٹی رات ہجر کی
ہر نالہ میری جان کو تیغ کشیدہ تھا

حاصل نہ پوچھ گلشن مشہد کا بوالہوس
یاں پھل ہر اک درخت کا حلق بریدہ تھا

دل بے قرار گریۂ خونیں تھا رات میرؔ
آیا نظر تو بسمل در خوں تپیدہ تھا