EN हिंदी
کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا | شیح شیری
kab talak ye sitam uThaiyega

غزل

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا

میر تقی میر

;

کب تلک یہ ستم اٹھائیے گا
ایک دن یوں ہی جی سے جائیے گا

شکل تصویر بے خودی کب تک
کسو دن آپ میں بھی آئیے گا

سب سے مل چل کہ حادثے سے پھر
کہیں ڈھونڈا بھی تو نہ پائیے گا

نہ موئے ہم اسیری میں تو نسیم
کوئی دن اور باؤ کھائیے گا

کہیے گا اس سے قصۂ مجنوں
یعنی پردے میں غم سنایئے گا

اس کے پابوس کی توقع پر
اپنے تیں خاک میں ملایئے گا

اس کے پاؤں کو جا لگی ہے حنا
خوب سے ہاتھ اسے لگایئے گا

شرکت شیخ و برہمن سے میرؔ
کعبہ و دیر سے بھی جائیے گا

اپنی ڈیڑھ اینٹ کی جدی مسجد
کسی ویرانے میں بنایئے گا