EN हिंदी
نہ پوچھ خواب زلیخا نے کیا خیال لیا | شیح شیری
na puchh KHwab zuleKHa ne kya KHayal liya

غزل

نہ پوچھ خواب زلیخا نے کیا خیال لیا

میر تقی میر

;

نہ پوچھ خواب زلیخا نے کیا خیال لیا
کہ کارواں کا کنعاں کے جی نکال لیا

رہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

رہوں ہوں برسوں سے ہم دوش پر کبھو ان نے
لے میں ہاتھ مرا پیار سے نہ ڈال لیا

بتاں کی میرؔ ستم وہ نگاہ ہے جس نے
خدا کے واسطے بھی خلق کا وبال لیا