محبت کا جب روز بازار ہوگا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہوگا
تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن
کبھی یہ قیامت طرحدار ہوگا
صبا موئے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے
کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہوگا
مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ
کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہوگا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہوگا
یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہوگا
عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل
ملے گا تو صورت سے بیزار ہوگا
نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں
ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہوگا
کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرحدار ہوگا
زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہوگا
نہ مر کر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا
ترے دام میں جو گرفتار ہوگا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میرؔ بھی یاں
جو ہوگا تو جیسے گنہ گار ہوگا
غزل
محبت کا جب روز بازار ہوگا
میر تقی میر