EN हिंदी
نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا | شیح شیری
na kisi se pas mere yar ka aana gaya

غزل

نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا

میر تقی میر

;

نا کسی سے پاس میرے یار کا آنا گیا
بس گیا میں جان سے اب اس سے یہ جانا گیا

کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا

ایک ہی چشمک تھی فرصت صحبت احباب کی
دیدۂ تر ساتھ لے مجلس سے پیمانہ گیا

گل کھلے صد رنگ تو کیا بے پری سے اے نسیم
مدتیں گزریں کہ وہ گلزار کا جانا گیا

دور تجھ سے میرؔ نے ایسا تعب کھینچا کہ شوخ
کل جو میں دیکھا اسے مطلق نہ پہچانا گیا