EN हिंदी
کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا | شیح شیری
kya mere aane pe tu ai but-e-maghrur gaya

غزل

کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا

میر تقی میر

;

کیا مرے آنے پہ تو اے بت مغرور گیا
کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گھور گیا

لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے
آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا

گور سے نالے نہیں اٹھتے تو نے اگتی ہے
جی گیا پر نہ ہمارا سر پر شور گیا

چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا

ناتواں ہم ہیں کہ ہیں خاک گلی کی اس کی
اب تو بے طاقتی سے دل کا بھی مقدور گیا

لے کہیں منہ پہ نقاب اپنے کہ اے غیرت صبح
شمع کے چہرۂ رخشاں سے تو اب نور گیا

نالۂ میرؔ نہیں رات سے سنتے ہم لوگ
کیا ترے کوچے سے اے شوخ وہ رنجور گیا