EN हिंदी
پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا | شیح شیری
pae KHitab kya kya dekhe itab kya kya

غزل

پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا

میر تقی میر

;

پائے خطاب کیا کیا دیکھے عتاب کیا کیا
دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا

کاٹے ہیں خاک اڑا کر جوں گرد باد برسوں
گلیوں میں ہم ہوئے ہیں اس بن خراب کیا کیا

کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش
اس کے خیال میں ہم دیکھے ہیں خواب کیا کیا

انواع جرم میرے پھر بے شمار و بے حد
روز حساب لیں گے مجھ سے حساب کیا کیا

اک آگ لگ رہی ہے سینوں میں کچھ نہ پوچھو
جل جل کے ہم ہوئے ہیں اس بن کباب کیا کیا

افراط شوق میں تو رویت رہی نہ مطلق
کہتے ہیں میرے منہ پر اب شیخ و شاب کیا کیا

پھر پھر گیا ہے آ کر منہ تک جگر ہمارے
گزرے ہیں جان و دل پر یاں اضطراب کیا کیا

آشفتہ اس کے گیسو جب سے ہوئے ہیں منہ پر
تب سے ہمارے دل کو ہے پیچ و تاب کیا کیا

کچھ سوجھتا نہیں ہے مستی میں میرؔ جی کو
کرتے ہیں پوچ گوئی پی کر شراب کیا کیا