ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
ٹہنی جو زرد بھی ہے سو شاخ زعفراں ہے
گر اس چمن میں وہ بھی اک ہی لب و دہاں ہے
لیکن سخن کا تجھ سے غنچے کو منہ کہاں ہے
ہنگام جلوہ اس کے مشکل ہے ٹھہرے رہنا
چتون ہے دل کی آفت چشمک بلائے جاں ہے
پتھر سے توڑنے کے قابل ہے آرسی تو
پر کیا کریں کہ پیارے منہ تیرا درمیاں ہے
باغ و بہار ہے وہ میں کشت زعفراں ہوں
جو لطف اک ادھر ہے تو یاں بھی اک سماں ہے
ہر چند ضبط کریے چھپتا ہے عشق کوئی
گزرے ہے دل پہ جو کچھ چہرے ہی سے عیاں ہے
اس فن میں کوئی بے تہہ کیا ہو مرا معارض
اول تو میں سند ہوں پھر یہ مری زباں ہے
عالم میں آب و گل کا ٹھہراؤ کس طرح ہو
گر خاک ہے اڑے ہے ور آب ہے رواں ہے
چرچا رہے گا اس کا تا حشر مے کشاں میں
خوں ریزی کی ہماری رنگین داستاں ہے
از خویش رفتہ اس بن رہتا ہے میرؔ اکثر
رہتے ہو بات کس سے وہ آپ میں کہاں ہے
غزل
ناز چمن وہی ہے بلبل سے گو خزاں ہے
میر تقی میر