تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
میں کشتہ ہوں انداز قاتل کا اپنے
نہ پوچھو کہ احوال ناگفتہ بہ ہے
مصیبت کے مارے ہوئے دل کا اپنے
دل زخم خوردہ کے اور اک لگائی
مداوا کیا خوب گھائل کا اپنے
جو خوشہ تھا صد خرمن برق تھا یاں
جلایا ہوا ہوں میں حاصل کا اپنے
ٹک ابرو کو میری طرف کیجے مائل
کبھو دل بھی رکھ لیجے مائل کا اپنے
ہوا دفتر قیس آخر ابھی یاں
سخن ہے جنوں کے اوائل کا اپنے
بنائیں رکھیں میں نے عالم میں کیا کیا
ہوں بندہ خیالات باطل کا اپنے
مقام فنا واقعے میں جو دیکھا
اثر بھی نہ تھا گور منزل کا اپنے
غزل
تڑپنا بھی دیکھا نہ بسمل کا اپنے
میر تقی میر