طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
کیا ناز کر رہے ہو اب ہم میں کیا رہا ہے
جیب اور آستیں سے رونے کا کام گزرا
سارا نچوڑ اب تو دامن پر آ رہا ہے
اب چیت گر نہیں کچھ تازہ ہوا ہوں بیکل
آیا ہوں جب بہ خود میں جی اس میں جا رہا ہے
کاہے کا پاس اب تو رسوائی دور پہنچی
راز محبت اپنا کس سے چھپا رہا ہے
گرد رہ اس کی یا رب کس اور سے اٹھے گی
سو سو غزال ہر سو آنکھیں لگا رہا ہے
بندے تو طرحدار وہیں طرح کش تمہارے
پھر چاہتے ہو کیا تم اب اک خدا رہا ہے
دیکھ اس دہن کو ہر دم اے آرسی کہ یوں ہی
خوبی کا در کسو کے منہ پر بھی وا رہا ہے
وے لطف کی نگاہیں پہلے فریب ہیں سب
کس سے وہ بے مروت پھر آشنا رہا ہے
اتنا خزاں کرے ہے کب زرد رنگ پر یاں
تو بھی کسو نگہ سے اے گل جدا رہا ہے
رہتے ہیں داغ اکثر نان و نمک کی خاطر
جینے کا اس سمیں میں اب کیا مزہ رہا ہے
اب چاہتا نہیں ہے بوسہ جو تیرے لب سے
جینے سے میرؔ شاید کچھ دل اٹھا رہا ہے
غزل
طاقت نہیں ہے دل میں نے جی بجا رہا ہے
میر تقی میر