EN हिंदी
طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے | شیح شیری
taqat nahin hai ji mein nai ab jigar raha hai

غزل

طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے

میر تقی میر

;

طاقت نہیں ہے جی میں نے اب جگر رہا ہے
پھر دل ستم رسیدہ اک ظلم کر رہا ہے

مارا ہے کس کو ظالم اس بے سلیقگی سے
دامن تمام تیرا لوہو میں بھر رہا ہے

پہنچا تھا تیغ کھینچے مجھ تک جو بولے دشمن
کیا مارتا ہے اس کو یہ آپھی مر رہا ہے

آنے کہا ہے میرے خوش قد نے رات گزرے
ہنگامۂ قیامت اب صبح پر رہا ہے

چل ہم نشیں کہ دیکھیں آوارہ میرؔ کو ٹک
خانہ خراب وہ بھی آج اپنے گھر رہا ہے