EN हिंदी
مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا | شیح شیری
mahr ki tujhse tawaqqoa thi sitamgar nikla

غزل

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا

میر تقی میر

;

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا
موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا

داغ ہوں رشک محبت سے کہ اتنا بیتاب
کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تو باہر نکلا

جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا
جو ستم دیدہ رہا جا کے سو مر کر نکلا

دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ
جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

اشک تر قطرۂ خوں لخت جگر پارۂ دل
ایک سے ایک عدد آنکھ سے بہہ کر نکلا

کنج کاوی جو کی سینے کی غم ہجراں نے
اس دفینے میں سے اقسام جواہر نکلا

ہم نے جانا تھا لکھے گا تو کوئی حرف اے میرؔ
پر ترا نامہ تو اک شوق کا دفتر نکلا