EN हिंदी
یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے | شیح شیری
yarab koi ho ishq ka bimar na howe

غزل

یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے

میر تقی میر

;

یا رب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے

زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے
پر دام محبت میں گرفتار نہ ہووے

اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ باؤ کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے

صد نالۂ جانکاہ ہیں وابستہ چمن سے
کوئی بال شکستہ پس دیوار نہ ہووے

پژمردہ بہت ہے گل گلزار ہمارا
شرمندۂ یک گوشۂ دستار نہ ہووے

مانگے ہے دعا خلق تجھے دیکھ کے ظالم
یا رب کسو کو اس سے سروکار نہ ہووے

کس شکل سے احوال کہوں اب میں الٰہی
صورت سے مری جس میں وہ بیزار نہ ہووے

ہوں دوست جو کہتا ہوں سن اے جان کے دشمن
بہتر تو تجھے ترک ہے تا خوار نہ ہووے

خوباں برے ہوتے ہیں اگرچہ ہیں نکورو
بے جرم کہیں ان کا گنہ گار نہ ہووے

باندھے نہ پھرے خون پر اپنی تو کمر کو
یہ جان سبک تن پہ ترے بار نہ ہووے

چلتا ہے رہ عشق ہی اس پر بھی چلے تو
پر ایک قدم چل کہیں زنہار نہ ہووے

صحرائے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میرؔ
یہ سیر سر کوچہ و بازار نہ ہووے