EN हिंदी
قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے | شیح شیری
qayamat hain ye chaspan jame wale

غزل

قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے

میر تقی میر

;

قیامت ہیں یہ چسپاں جامے والے
گلوں نے جن کی خاطر خرقے ڈالے

وہ کالا چور ہے خال رخ یار
کہ سو آنکھوں میں دل ہو تو چرا لے

نہیں اٹھتا دل محزوں کا ماتم
خدا ہی اس مصیبت سے نکالے

کہاں تک دور بیٹھے بیٹھے کہیے
کبھو تو پاس ہم کو بھی بلا لے

دلا بازی نہ کر ان گیسوؤں سے
نہیں آساں کھلانے سانپ کالے

تپش نے دل جگر کی مار ڈالا
بغل میں دشمن اپنے ہم نے پالے

نہ مہکے بوئے گل اے کاش یک چند
ابھی زخم جگر سارے ہیں آلے

کسے قید قفس میں یاد گل کی
پڑے ہیں اب تو جینے ہی کے لالے

ستایا میرؔ غم کش کو کنھوں نے
کہ پھر اب عرش تک جاتے ہیں نالے